۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مقتل خوانی محرم

حوزہ/ قاتلان حسین ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور وہ لوگ جو قاتلان حسین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں کیا بروز حشر پیغمبرِ اسلام کا سامنا کر پائیں گے؟

تحریر: سویرا بتول 

حوزہ نیوز ایجنسیآسمان سے آگ برساتا سورج اب مغرب میں اتر رہا تھا۔گرم ہوا کے صحرائی بگولے ٹیلوں، میدانوں اور راستوں پر چکراتے پھر رہے تھے۔پریشان حال، غم زدہ اور مظلوم قیدیوں کا قافلہ انسانی شکل والے درندوں اور سفاک قاتلوں میں گھرا ہوا کربلا سے گزر کر منزل قادسیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کوفے میں اسیران کربلا کو ایک بے سایہ قیدخانے میں قید کیا گیا جہاں دن بھر چلچلاتی دھوپ ہوتی اور رات بھر آسمان سے شبنم کے آنسو گرا کرتے۔قیدیوں کو کھانے پینے کے لیے اتنا ہی دیا جاتاتھا کہ ان کی سانسیں چلتی رہیں۔ اسی قیدخانے کے قریب ہی وہ جگہ تھی جہاں بیس پچیس سال پہلے جناب زینب بنت علی علیہ سلام نے اپنے والد کے دور خلافت کے زمانے میں کوفے کی عورتوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینے کے لیے ایک درسگاہ قائم کی تھی۔کبھی وہ اس شہر میں انتہائی عزت واحترام کے ساتھ رہا کرتی تھیں اور آج اسی شہر کے ایک قید خانے میں قید تھیں اور لوگ ان کے گھرانے سے اپنی عقیدت و محبت تک کو چھپانے پر مجبور تھے۔ان تمام مشکلات، مسائل اور مصائب کے باوجود شام غریباں سے اب تک کوئی رات ایسی نہیں گزری تھی کہ جناب زینب بنت علی نے نماز شب نہ ادا کی ہو۔عاشور کی رات امام عالی مقام علیہ سلام نے اپنی بہن کو وصیت کی تھی "بہن! نماز شب میں مجھے نہ بھولنا"رات کے آخری پہر میں جناب زینب تیمم کرکے نماز شب ادا کرتیں، اپنے مظلوم بھائی کو یاد کرکے زاروقطار آنسو بہاتیں اور بارگاہ الٰہی میں مناجات کرتیں۔

امام زین العابدین قید خانے کے الگ کونے میں عبادت میں مصروف رہتے۔کبھی وہ اپنے بابا کو یاد کرتے،کبھی اپنے بھائیوں کو۔بنوہاشم کے ایک ایک فرد کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھومتا تو ان کا دل پھٹنے لگتا۔وہ اپنی چیخوں کو بہ مشکل روتے اور قریب سوئی ہوئی بہن کے معصوم چہرے پر نظر ڈالتے۔چاند کی روشنی میں جناب سکینہ علیہ سلام کے رخساروں پر آنسوؤں کی لکیریں چمکتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔امام زین العابدین دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے اور شب بھر، سجدہ شکر بجا لاتے اور رب سے مناجات کرتے۔

اللہ کی حمدوثنا کی یہ آوازیں، رات کے سناٹے میں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ قیدخانے کے اردگرد بنے ہوئے مکانوں تک جاتیں تو اونگھتے ہوئے لوگ اٹھ جاتے۔عورتیں سروں کو ڈھانپ کر رونے لگتیں، نوجوان بے قراری سے کروٹیں بدلنے لگتے۔ ایسے قیدی انہوں نے کہا دیکھے تھے جو مصائب و مشکلات کے اس آخری درجے میں بھی اپنی راتیں اللہ کی حمد وثناء اور شکر کے سجدوں میں گزارتے ہوں!صبر، برداشت، اپنے مالک کی ذات پر کامل یقین اور اس کی مرضی پر راضی رہنے والے یہ قیدی انہیں فرشتوں سے بھی زیادہ معصوم لگنے لگے تھے۔قیدخانے سے رات کے سناٹے میں پھیلنے والی حمدوثناء کی ان مقدس آوازوں نے پہلے قریبی گھروں کو منور کیا۔پھران آوازوں کے تذکرے سینہ بہ سینہ شہر کے دوسرے گھروں، گلیوں اور بازاروں تک پہنچ گئے۔

بشیر بن خزیم اسدی کہتا ہے کہ میں نے جناب سیدہ زینب بنت علی کو اس حالت میں دیکھا کہ بخدا!ان سے زیادہ باحیاء مستور کو بولتے نہیں دیکھا۔گویا وہ زبان علی ابن ابی طالب سے بول رہی ہیں اور جب انہوں نے فرمایا: لوگو!خاموش ہو جاؤ!تو لوگوں کے سانس تک رک گئے اور اونٹوں کے گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز تک بند ہو گئ۔ان قیدیوں کی شعلہ فشاں تقریریں بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتی تھیں اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی دعائیں بھی دلوں کو نرم کرتی جارہی تھیں۔یزیدی پروپیگنڈے کے پردے چاک ہوتے جارہے تھے۔حق جیت رہاتھا، باطل ہارتا جارہا تھا۔ان قیدیوں نے رسول اللہ سے اپنی نسبت کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی کردار و عمل سے بھی اپنی عظمت ثابت کردی تھی۔کوفے کے لوگوں کو اسلام کے نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے مکروہ چہرے اب صاف نظر آنے لگے تھے۔ "وہ لوگ جنہوں نے رسول کے بیٹے کو قتل کیاہے کیا قیامت کے روز حسین ابن علی علیہ سلام کے جد سے شفاعت کی امید کرسکتے ہیں ؟خدا کی قسم اللہ کے رسول ہرگز ان کی شفاعت نہیں کریں گے۔قاتلان حسین ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور وہ لوگ جو قاتلان حسین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں کیا بروز حشر پیغمبرِ اسلام کا سامنا کر پائیں گے؟

تبصرہ ارسال

You are replying to: .